تحریر: ڈاکٹر آصف محمودجاہ
عام، پیچیدہ اورخصوص بیماریوں میں استعمال ہونے والی ادویات، ان کے مضر اثرات استعمال وانتخاب میں احتیاط اور قدرتی آسان طریقہ علاج پر راہنما کتاب
دواؤں کے مضر اثرات سے کیا مراد ہے
مختلف بیماریوں کے علاج کے لیے استعال ہونے والی ایلو پیتھک دوائیں اس صدی کی بہت بڑی دریافت ہیں ۔ اگر چہ دوائیں جلد اثر کر کے صحت بخشتی ہیں لیکن اصل بیماری کو ختم کرتےکرتے کچھ ایسے اثرات بھی چھوڑ سکتی ہیں جن کا اصل بیماری کے علاج سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ان اضافی اور غیر ضروری اثرات کومضر اثرات(Side Effects) کہتے ہیں۔
عام طور پر مضر اثرات دوائوں کے کیمیائی اثر سے ہوتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر دوائیں ایسی ہیں جن کے اثرات معمولی سی تکلیف کا سبب بنتے ہیں۔ بعض مرتبہ کوئی ایک مضراثر خطرناک حد تک پہنچ جاتا ہے اور اگر بر وقت اس کا تدارک نہ کیا جائے تو موت کا باعث بھی بن سکتا ہے۔
یہ جاننا بھی بہت ضروری ہے کہ کی دوائی کے تمام کے تمام مضر اثرات ایک ہی مریض میں ظاہرنہیں ہوتے۔ کچھ مریضوں میں ایک طرح کے اثرات ظاہر ہوتے ہیں تو دوسرے مریضوں میں دوسری طرح کے بعض مریضوں میں ایسے مضر اثرات شروع سے نمودار ہی نہیں ہوتے۔ ان اثرات کے ظاہر ہونیکی الگ الگ وجوہات ہوتی ہیں ۔ جو مریض کی جنس، عمر، وزن ، خوراک دوا کی مقدار اور بیماری کی نوعیت پرمنحصر ہوتی ہیں ۔ بعض دفعہ دوا کی مقررہ مقدار سے زیادہ خوراک لینے سے بھی مضراثرات ہوجاتے ہیں ۔ اسی طرح اگر کھانے پینے کے بارے میں بتائی گئی ہدایات پرعمل نہ کیا جائے تو بھی مضر اثرات ہو سکتے ہیں۔
آپ جب بھی کوئی دوا اکیلی یا دوسری دواؤں کے ساتھ استعمال کر رہے ہوں تو ڈاکٹر سے ان کے ممکنہ مضر اثرات اور احتیاط کے بارے میں ضرور پوچھ لیں ۔ بعض اوقات صرف دوا کی خوراک بدلنے یا اس کو کھانے کے ساتھ لینے سے بھی مضر اثرات سے بچا جا سکتا ہے۔ اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو پھر ڈاکٹر کسی اور طریقے سے ان اثرات کوختم یا کم کرنے میں مدد کر سکتے ہیں۔
عام معلومات
سات حفاظتی تدابیر:
1- دوا ہمیشہ ڈاکٹر کے مشورہ سے لیں ،نسخہ کے مطابق استعمال کریں اور ڈاکٹر کی ہدایات پر عمل کریں۔
2- دوا لیتے وقت ڈاکٹر سے اس کے ممکنہ مضر اثرات کے بارے میں ضرور پوچھیں تا کہ آپ کو غیرضروری پریشانی نہ ہو۔ عام طور پر دوائوں کی پیکنگکے اوپر یا اس کے اندر ایک کاغذ پر اس طرح کے مضر اثرات کی تفصیل اور دوسری معلومات لکھی ہوتی ہیں۔
3- یادرکھیں اگر آپ حاملہ ہیں، ہائی بلڈ پریشر، ذیابیطس (شوگر) یا کسی اور پرانی بیماری کی مریضہ ہیں تو کوئی دوا کھانے سے پہلے ڈاکٹر سے مشورہ کر لیں۔
4- اگر آپ کو کسی دوا سے الرجی ہے تو ڈاکڑ کو ضرور بتائیں۔
5- اگر دوا لیتے وقت یا اس کے فورا بعد آپ کی طبیعت خراب ہونے لگے تو مزید دوانہ لیں اور ڈاکٹر سے مشورہ کریں۔
6- مختلف دوائوں کو آپس میں نہ ملائیں۔ اگر آپ ایک سے زیادہ دوائیں استعمال کر رہے ہوں، چاہے وہ اسپرین(Aspirin) یا تیزابیت دور کرنے والی دوا(Antacid)ہی ہو، ڈاکٹر کو اس کے بارے میں ضرور بتائیں ۔ دواؤں کو الکحل کے ساتھ استعمال نہ کریں۔
7- دوا کوڈاکٹر کی تجویز کردہ مدت تک کھائیں۔ اپنی مرضی سے اس مدت میں کمی بیشی نہ کریں۔
بچوں کے لیے دواؤں کا استعمال:
بچوں کے معاملہ میں دواؤں کے استعمال میں اور بھی زیادہ توجہ اور احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ بڑوں کے باعکس مختلف عمر کے بچوں کے لیے دوا کی خوراک مختلف ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ بعض ایسی دوائیںجو بڑوںکے لیے فائدہ مند ہوی ہیں، بچوںکے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہیں۔ مثلا اسپرین (Aspirin) کا استعمال بچوں میں جگر کیبیماریوں اور دماغی امراض کا سبب بن سکتا ہے۔ اس لیے بچوںکو اسپرین کبھی نہ دیں۔ اسی طرح 10 سال سے کم عمر کے بچوں کو اگر ٹیڑا سائیکلین (Tetracycline) دی جائے تو انکے دانت پیلے ہو جاتے ہیں اور انکی ہڈیوں کی نشوونما بھی رک جاتی ہے۔
بچوں کو دوا دیتے وقت نیچے دی گئی باتوں کا خیال رکھیں: تمام دواؤں کو بچوں کی پہنچ سے دور رکھیں۔دوا ہمیشہ ڈاکٹر کی تجویز کردہ خوراک کے مطابق دیں۔ بچوں کو دوا ہمیشہ اپنی موجودگی میں دیں اور نہ وہ زیادہ مقدار میں خوراک لے سکتے ہیں۔ بچوں کو میٹھی یا شوخ رنگوں والی دوا کبھی بھی مٹھائی یا جوس کہہ کر نہ پلائیں بلکہ دوا کہہ کرہی دیں۔
اسہال یا ڈاریا(Diarrhoea) میں دواؤں کا استعمال:
جب دن میں3 یا 3 سے زیادہ پتلے پاخانے آئیں تو اسے اسہال یا ڈائریا (Diarrhoea) کہتے ہیں۔ ہر سال بہت سے بچے ڈائریا کے نتیجے میں جسم میں پانی اور نمکیاں کساتھ ساتھ غذائیت کی کمی سے مر جاتے ہیں۔
اچانک ہونیوالا ڈائریا تو چند دنوں میں ہی ختم ہو جاتا ہے۔ اس لیے ڈائر یار و کنے والی مختلف دواؤں اور اینٹی بائیو ٹکس (Antibiotics) لینے کا بالکل کوئی فائد نہیں ۔تحقیق سے بھی یہ بات سامنے آگئی ہے کہ ڈائریا میں دوائوں کا استعمال بالکل غیرضروری ہے۔ بلکہ ڈائریا روکنے والی ایک مشہور دوائی سے کئی بچوں کی اموات بھی واقع ہوئیں۔ اس صورت میں دوائیں استعمال کرنے سے پیسے ضائع ہونے کے ساتھ ساتھ مریض کو نقصان پہنچنے کا بھی امکان ہے۔ اس کے علاوہ اگر انفیکشن کی وجہ سے ڈائر یا ہو تو پھر اس انفیکشن کے علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔
اچانک ہونے والے ڈائریا کے زیادہ تر مریضوں کو کافی مقدار میں کافی نمکول(ORS)، | جوں اورسوپ وغیرہ دینا فائدہ مند ہے۔ صرف چند مریض ایسے ہوتے ہیں جن کو پانی اور نمکیاں کی شدت کمی اور نہ رکھنے والی بہت زیادہ قے آنے کی صورت میں ہسپتال داخل کرانے کی ضرورت ہوتی ہے، جہاں ان کے جسم میں پانی اور نمکیات کی کمی کوڈرپ کے ذریعے پورا کیا جاتا ہے۔
جب آپ کے بچے کوڈائریا ہوجائے تو اسے پینے والی چیز میں زیادہ دیں۔ دودھ پلا نا جاری رکھیں اور اسے ابلا ہوا پانی، نمکولORS)) اور ہلکی غذا دیں۔ ڈائریا کے ذریعہ جو پانی خارج ہورہا ہے اس سے زیادہ بچے کو منہ کے ذریعے دینا چاہیے۔ اگر پانی اور نمکیات کی کمی پوری ہوتی رہے تو پھر ڈائریا سے کسی قسم کے نقصان کا خطرہ نہیں رہ جاتا۔
حمل کے دوران دواؤں کا استعمال:
حمل کے دوران کسی بھی مرحلے پردوائیں استعمال کرنے سے ہونیوالے بچے پر ان کے نقصان دہ اثرات پڑ سکتے ہیں ۔ آسانی کے لیے حمل کی مدت کوتین برابر مرحلوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
نمبر1 ۔ پہلی سہ ماہی : پہلے تین ماہ ۔۔۔۔نمبر 2۔ دوسری سہ ماہی : چوتھے ماہ سے چھٹے ماہ تک۔۔۔۔نمبر 3۔تیسری سہ ماہی : ساتویں ماہ سے نویں ماہ تک۔
پہلی سہ ماہی کے دوران دواؤں کا استعمال بچوں میں کوئی پیدائشی نقص پیدا کرسکتا ہے۔ حمل کے شروع کے 3 سے 11 ہفتوں کے دوران بچے کونقصان پہنچے کا سب سے زیادہ خطرہ ہے۔ دوسری اور تیسری سہ ماہی کے دوران دواؤں کے استعمال سے بچے کی نشوونمارک سکتی ہے یا اس کے جسم پر دواؤں کے زہریلے اثرات کا اثر ہو سکتا ہے۔ حمل کے آخری دنوں یا زچگی کے دوران لی گئی دواؤں کا مضر اثربچے پر پیدائش کے بعد بھی ہوسکتا ہے۔ حمل کے دوران صرف اسی صورت میں دوا استعمال کریں جب آپ کو پورا یقین ہو جائے کہ اس سے ماں باپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ اگرممکن ہو تو پہلی سہ ماہی کے دوران کسی قسم کی دواکا استعمال نہ کریں۔


Post A Comment:
0 comments: