قومی اسمبلی کے ہنگامہ خیز اجلاس میں ڈپٹی اسپیکر اسمبلی قاسم سوری نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو غیر آئینی قرار دے کر مسترد کر تے ہوئے اجلاس غیر معینہ مدت تک ملتوی کردیا ،ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے اجلاس کی کارروائی شروع ہوتے ہی وفاقی وزیر قانون واطلاعات ونشریات فواد حسین چوہدری کو مائیک پر بولنے کی اجازت دی،وزیر قانون نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد آئین کے آرٹیکل 95کے تحت ہے جبکہ اسی آئین کا ایک آرٹیکل 5اے بھی موجود ہے جسے دیکھنے کی ضرورت ہے انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ایک سیکورٹی میٹنگ میں پاکستان کے سیاسی معاملات زیر غور آئے ہیں۔وزیر قانون نے کہا کہ عمران خان کی حکومت کے خلاف بیرونی سازش ثابت ہوچکی ہے لہٰذا ہم سپیکر سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ آئین کے آرٹیکل 5اے کے تحت اس سے مسترد کردیں اور عالمی سازش کو ناکام بنادیں ،وزیر قانون کے اس بیان کے فوراً بعد ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے اپنی رولنگ پڑھنا شروع کردی ۔ڈپٹی اسپیکر نے کہا کہ وزیراعظم پاکستان کے خلاف اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد کی تحریک کا آئین، قانون اور رولز کے مطابق ہونا ضروری ہے۔ کسی غیر ملکی طاقت کو یہ حق نہیں کہ وہ سازش کے تحت پاکستان کی منتخب حکومت کو گرائے۔ وزیر قانون نے جو نکات اٹھائے ہیں وہ درست ہیں ۔لہٰذا میں رولنگ دیتا ہوں ۔
کہ عدم اعتماد کی قرارداد آئین، قومی خود مختاری اور آزادی کے منافی ہے اور رولز اور ضابطے کے خلاف میں یہ قرارداد مسترد کرنے کی رولنگ دیتا ہوں۔ انہوں نے اپنی رولنگ دینے کے بعد ایوان زیریں کے اجلاس کو غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردیا ۔قومی اسمبلی سے تحریک عدم اعتماد مسترد ہونے کے فوری بعد وزیراعظم عمران خان نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ڈپٹی سپیکر کی جانب سے تحریک عدم اعتماد مستر دکر نے پر پوری قوم کو مبارکباد پیش کرتا ہوں ، اس تحریک عدم اعتماد کی پیچھے بیرونی طاقت کا ایجنڈا شامل تھا ۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ میں نے صدر مملکت کو اسمبلیاں توڑنے کا ہے ،تاکہ ڈیموکریٹک معاشرے میں عوام کے پاس جائیں ،الیکشن میں عوام نے فیصلہ کرنا ہے ،کہ وہ کسے انتخاب کرے گی ، سارے کرپٹ لوگ اور ضمیر فروش اس ملک کا پیسہ لوٹنے والے ملک کی تقدیر کافیصلہ ہر گز نہ کریں ۔اسمبلیاں ٹوٹنے کے بعد الیکشن کے مراحل کا آغاز ہوجائے گا ۔صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے وزیراعظم عمران خان کی تجویز ملتے ہی قومی اسمبلی توڑنے کی سمری کو منظور کرلیا جس کے بعد آئینی طور پر قومی اسمبلی اور وفاقی کابینہ بھی تحلیل ہوگئی۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کے صدارتی حکم اور اسپیکر کی متنازع رولنگ کے پیش نظر ازخود نوٹس کی سماعت میں ریمارکس دئیے کہ اقدامات کیے جا چکے ہیں ابھی حکم امتناعی نہیں دے سکتے۔
بینچ میں شامل چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اعجاز الاحسن نے سماعت کے دوران عدالت عظمی نے ریاستی عہدیداروں کو کسی بھی ماورائے آئین اقدام سے روک دیا۔سپریم کورٹ نے ریمارکس دئیے کہ ہم نے مناسب سمجھا ہے کہ معا ملے کا نوٹس لیں، کیس کو صرف کل کے لیے ملتوی کر رہے ہیں، کوئی بھی ریاستی ادارہ غیر آئینی اقدام نہ کرے۔ عدم اعتماد میں شامل تمام سیاسی جماعتیں اور ریاستی ادارے امن وامان برقرار رکھیں۔ سپریم کورٹ نے سیاسی حالات پر لیے گئے ازخودنوٹس پر لارجر بینچ بنانے کا فیصلہ کیا ہے ۔ 4اپریل(آج) پانچ رکنی لارجر بینچ دن ایک بجے ازخودنوٹس کی سماعت کرے گا۔قومی اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد اپوزیشن جماعتوں کا احتجاج پارلیمانی روایات کا حصہ ہے حالانکہ اپوزیشن جماعتیں ایک عرصہ سے اسمبلیاں تحلیل کر کے نئے انتخابات کرانے کا مطالبہ کر تی آ رہی تھیں جسے حکومت تسلیم نہیں کر رہی تھی ، ملک میں بڑھتی ہوئی سیاسی کشیدگی کے خاتمہ کیلئے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا فیصلہ مناسب ہے کیونکہ ملک میں جاری بحران کا واحد حل بھی یہی ہے کہ قوم اپنے نئے نمائندوں کا انتخاب کرے ۔

Post A Comment:
0 comments: