تحریر: صدف سلطان
عمران خان نے اپنے جلسوں میں تبدیلی اور ریاست مدینہ کا نعرہ لگایا۔ اور لوگوں نے سمجھا کہ عمران خان آئے گا جادو کی چھڑی گھمائے کا اور راتوں رات نیا پاکستان بن جائے گا، تبدیلی آجائے گی اور ریاست مدینہ کے طور طریقے نافذ ہو جائیں گے۔حکمران صرف ملک چلا سکتا ہے، وہ اکیلا تبدیلی نہیں لا سکتا۔ تبدیلی نظام میں لائی جاتی ہے اور نظام اک قوم اور حکمران مل کر چلاتے ہیں۔ پاکستان کا نظام کچھ ایسا ہے کہ قوم ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھی ہے۔ حکمران آتے ہیں اپنا اپنا شو دکھاتے ہیںاور چلے جاتے ہیں۔جس حکمران کے دور میں مہنگائی کم ہو جائے عوام تالیاں بجانے لگ جاتی ہے، اور جس حکمران کے دور میں مہنگائی زیادہ ہو جائے عوام دہائی دینے لگ جاتی ہے۔ تبدیلی دو قسم کی ہوتی ہے ، انقلابی تبدیلی اور ارتقائی تبدیلی۔ انقلابی تبدیلی راتوں رات آتی ہے ، ہمارے سامنے ترکی کا نظام ہے ۔ لوگ سڑکوں پر نکل آئے تھے ۔ ٹینکوں کے نیچے لیٹ گئے تھے۔ اور ترکی کی حکومت بدل گئی تھی۔ انقلاب اس صورت میں آتا ہے جب بادشاہت اور آمریت کو ختم کرنے کے لیئے لوگ سڑکوں پر نکلتے ہیں، جانیں جاتی ہیں، اور بادشاہت اور آمریت ، جمہوری نظام میں بدل جاتا ہے۔ جبکہ ارتقائی تبدیلی اک لمبے عرصے کے بعد آتی ہے۔ارتقائی تبدیلی میں رسم ورواج بدلتے ہیں، معاشرے کے طور طریقے بدلتے ہیں۔سوچ بدلتی ہے۔ انقلابی تبدیلی سے حکومتیں بدلتی ہیں، جبکہ ارتقائی تبدیلی سے قومیں بدلتی ہے۔ اور پاکستان کو ارتقائی تبدیلی کی ضرورت ہے۔
ارتقائی تبدیلی کو دو سے تین نسلوں کا سفر طے کرنا پڑتا ہے۔ٖفرسودہ رسم و رواج بدلنے کے لیئے سوچ بدلنی پڑتی ہے۔ اور اس سوچ بدلنے کے سفر میں تعلیم وتربیت اہم اور بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ تربیت کی بات کریں تو ماں کی گود ، باپ کی شفقت اور سختی، بہن بھائیوں کا سلوک اتفاق اور جھگڑا، تعلیم کی بات کریں تو اساتذہ کی محنت اور لگن، نصابی اور غیر نصابی سر گرمیاں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ اور ہمارے یہ ہی دونوں نظام فرسودہ ہیں۔ باپ کمانے میں مصروف ہے۔ماں سسرالیوں کی خدمتوں میں مصروف ہے۔ میاں بیوی کے آپسی جھگڑے ہی ختم نہیں ہوتے کہ اولاد پر توجہ دی جا سکے۔ بڑے بڑے نجی سکولوں میں ماں باپ اپنا پیٹ کاٹ کر خواہشوں کو مار کرہزاروں کی فیس ادا کر کے اپنی ذمہ داری سے ہاتھ دھو لیتے ہیں۔ بچہ اسکول میں کیا سیکھ رہا ہے اسکے دوست کیسے ہیں ، اسکا نصاب کیسا ہے، ماں باپ کو اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ ماں باپ نمبروں پر زور دیتے ہیں اوربچے کو ڈاکٹر یا انجینئر بنانا چاہتے ہیں۔ سارے تعلیمی دور میں بچے کے ذہین میں اک بات پیوست کر دی جاتی ہے کہ اچھے نمبر ہوں گے تو اچھی نوکری ملے گی، اچھی نوکری ہوگی تو بیوی بچوں کے ساتھ اچھی زندگی گزر جائے گی۔سب کے سب اچھی نوکری کے پیچھے پڑے ہیں، مگر ایمانداری، ذمہ داری ، محنت ، اور ترقی جیسے عوامل کو صرف بحث ومباحثہ کے لیئے رکھا ہوا ہے۔
اپنی نوکری میں بے ایمانی اور کام چوری کرنے کو اپنا حق سمجھنے والا شخص حکومت اور اداروں کی بے ایمانی اور کام چوری پر انگلی اٹھاتا ہے۔ ہماری پچھلی دہائیوں کی نسل نے آج کی نسل کو انفرادیت پسند بنا دیا ہے۔ہرکوئی یہ سوچ لیتا ہے کہ اک میرے ہیرا پھیری کرنے سے کیا ہوتا ہے۔یہ انسانی فطرت ہے کہ ایک بندہ جو کام کرتا ہے دیکھا دیکھی دوسرے بھی وہی کام شروع کر دیتے ہیں۔ ہمیں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہماری اولاد ، پڑوسی ، ملنے جلنے والے لوگ ہمارے عمل سے جانے انجانے میں مثبت یا منفی طور پر متاثر ہو رہے ہوتے ہیں۔ ہم انفرادیت پسند لوگ قومی مسائل پر بحث کر کے ، حکمرانوں کو کوس کر آرام سے سو جاتے ہیں۔اور ہمیں اتنا بھی معلوم نہیں کہ قومی مسائل میں اور حکومتی مسائل میں فرق ہے۔ قوم کسی بھی ملک کے شہریوں سے مل کر بنتی ہے اور پھر اسی قوم سے حکومت بنتی ہے۔ ہماری قوم ا نفرادیت پسند ہے اسی لیئے ہماری حکومتیں بھی انفرادیت پسند رہی ہیں۔اپنے مفاد کے لیئے ملک و قوم کا پیسہ کھا گئے۔ ملک و قوم کو بھکاری اور غلامی کا ہار پہنا دیا۔ ایک لیڈر کا کام ہوتا ہے راستہ اور منزل دکھانا۔ عمران خان نے قوم کو جگایا اور بتایا کہ ارتقائی تبدیلی کی ضرورت ہے، اس تبدیلی کے لیئے اس نے سارے پاکستان میں اک ہی نصاب کو لازم کر دیا تاکہ سب کی سوچ اک مثبت سمت میں جا سکے اور یہ انفرادیت پسند لوگ اک قوم کی شکل اختیار کر لیں۔ اور منزل یہ دکھائی کہ ہمیں تبدیلی لاتے ہوئے اک قوم بننا ہے اور اپنے ملک کو ریاست مدینہ بنانا ہے۔
یہ ملک ریاست مدینہ تب بنے گی جب اس ملک کا ہر بندہ ، ہر شہری انفرادیت پسندی سے نکل کر ملک وقوم کی بہتری کے لیئے اپنے عمل کو درست کرے گا۔ جب اک باپ ایمانداری کے ساتھ روزری روٹی کما کر لائے گا تو بچے بھی ایماندری سیکھیں گے۔ پڑھنے پڑھانے اور نصیحتوں سے زیادہ ہمارے عمل ہمارے بچوں اورآس پاس کے لوگوں کو متاثر کرتی ہیں ۔ ہر انسان اپنے آپ میں اک مثال ہوتا۔ اپنے آپ کو اک اچھی مثال بنائیں۔ نبی پاکﷺ نے لوگوں کو بتایا کہ اللہ ایک ہے اور وہی عبادت کے لائق ہے۔ اس بات کو ماننا یا نہ ماننا لوگوں کے ہاتھ میں تھا، جن لوگوں نے مان لیا وہ مسلمان ہو گئے۔ جن لوگوں نے اس بات کو سمجھ لیا وہ دنیا و آخرت میں کامیاب ہوگئے۔ اور جن لوگوں نے جھٹلا دیا وہ کافر ، ہٹ دھرم اور سرکش ہو گئے۔ اسی طرح عمران خان نے راستہ دکھا دیا ہے۔ اور جن لوگوں نے اسکی بات کو مان لیا ہے وہ اسکے حق میں ہو گئے ہیں، جن لوگوں اس کی بات کو سمجھ لیا ہے وہ خود کو اور قوم کو بدلنے میں لگ گئے۔ اور جن لوگوں نے جھٹلا دیا ہے اوہ اکھٹے ہو کر عمران خان کے خلاف ہوگئے۔ہمیں ارتقائی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ اور اس تبدیلی کے لیئے ہمیں صبروتحمل سے اپنی سوچ اور اپنے عمل کو درست کرتے ہوئے اپنی آنے والی نسلوں کو وہ پاکستان دینا ہے جو ریاست مدینہ ہوگا۔ جس کا خواب عمران خان نے دکھایا ہے۔ جہاں ہر بندہ ایمانداری اور ذمہ داری سے ملک وقوم کے لئیے اپنا کردار ادا کرے گا۔
٭٭٭٭٭


Post A Comment:
0 comments: