مشہور تحاریر

یہ بلاگ تلاش کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Navigation

بریکنگ نیوز

کسانوں کی ترقی میں حکومت کا کردار


تحریر: رابعہ طاہر 


پاکستان ایک زرعی ملک ہے جس کی سماجی اور اقتصادی ترقی کا دارومداد زراعت پر ہے ملکی شرح نمو میں زراعت کا حصہ تقریباً اکیس فیصد ہے اور پینتالیس فیصد سے زائد لوگوں کا دارومدار اسی شعبے سے وابستہ ہے اور ہماری ترقی کا زیادہ تر دارومدار زراعت پر ہے جس کے لئے ضروری ہے کہ کسانوں کی ترقی اور ان کو جدید ٹیکنالوجی سے متعارف کروانے کے لئے نئے اقدامات کئے جائیں لیکن پچھلی حکومت نے کسانوں کی بہتری کے لئے زیادہ خاص اقدامات نہیں کئے جبکہ موجودہ حکومت نے کسانوں کی بہتری کے لئے بہت سے نئے اقدامات کئے جیسا کہ پاکستان میں آبپاشی کا نظام برسوں پرانا ہے، یہ انگریزوں کے زمانے سے چل رہا ہے۔ آبپاشی کے نظام کو مزید بہتر کرنے کے لئے نئی نئی ٹیکنالوجیز متعارف کروائی گئی ہیں۔ زرعی سائنسدانوں کے مطابق پاکستان میں ڈرپ نظام آبپاشی کو سولر سسٹم کی مدد سے کامیابی سے چلایا جا سکتا ہے کیونکہ صوبہ پنجاب میں ایک سال میں تقریباً تین سو دن تک سورج کی روشنی کی ایک موثر مقدار روزانہ آٹھ گھنٹے تک دستیاب ہوتی ہے۔حکومت پاکستان کی طرف سے ٹیوب ویلزپر سبسڈی دینے کی تجویز سے متعلق اجلاس پچھلے دنوں ہوا۔ جس میں زرعی شعبے کے فروغ اور چھوٹے کاشتکاروں کے ریلیف دینے سمیت ٹیوب ویلز کے استعمال پر بجلی کے نرخوں پر سبسڈی دینے کی تجویز پر مشاورت کی گئی۔

یہ پنجاب بھر کے کسانوں اور پاکستانی عوام کے لئے مقام مسرت ہے کہ کاشتکار بارانی علاقوں میں بھی کپاس کاشت کر کے پاکستانی معیشت کی بہتری میں اپنا حصہ ڈال سکے گا جس کی بدولت ہزاروں لوگوں کو روزگار کے مواقع بھی حاصل ہوں گے۔ کپاس، پاکستان کی ایک نقد آور فصل ہے اور پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ ملکی زرمبادلہ کا 60 فیصد انحصار کپاس اور اس کی مصنوعات کی برآمدات پر ہے۔جنوبی پنجاب کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے کاٹن ریسرچ انسٹیٹیوٹ ملتان میں 35 کروڑ 20 لاکھ روپے کے خطیر فنڈز کی لاگت سے جدید لیبارٹری دفاتر کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جس سے کپاس کے نئے بیچوں کی تیاری اور دیگر مسائل کے حل میں مدد ملے گی۔ گلابی سنڈی گزشتہ کئی برسوں سے ایک سنگین مسئلہ ہے اس کی روک تھام کے لئے نئی نئی ادویات بنائی گئی اور اس پر قابو پایا گیا۔ حکومت پاکستان نے 300 ارب روپے کے زرعی ایمرجنسی پروگرام کا آغاز کیا ہے۔اس وڑن کو آگے بڑھاتے ہوئے پنجاب حکومت نے زرعی شعبہ کی ترقی کے لئے عملی اقدامات کا آغاز کیا۔ زرعی پالیسی 2019 تشکیل دی گئی ہے تاکہ پنجاب کو حقیقی معنوں میں زرعی سرگرمیوں کا مرکز بنایا جا سکے۔کاشتکاروں کی سہولت کیلئے اس کریڈٹ اسکیم کے قرضوں کی حد بڑھا دی گئی ہے اور اب بیچ ، کھاد اور دیگر زرعی مراحل کے حصول میں دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ 

ربیع کی فصل کے لئے ای کریڈٹ اسکیم کے قرضو ںمیں 5 ہزار اور خریف کے لئے 10 ہزار روپے کا اضافہ کیا گیا ہے۔ دو سال کے دوران کاشتکاروں کو 35 ارب روپے کے بلاسود قرضے فراہم کئے جا چکے ہیں۔ کاشتکاروں کو موسمیاتی تبدیلیوں، قدرتی آفات اور ٹڈی دل کے نقصانات کے ازالے کے لئے بیمہ کی سہولت فراہم کی گئی ہے۔ کاشتکاروں کو نئی ٹیکنالوجی سے متعارف کرانے کے لئے بہت اہم اقدامات کئے جس کی وجہ سے تمام کسانوں کو نئی سہولیات ملیں اور ان کی مشکلات میں کمی آئی اور اس کے ساتھ ساتھ پیداوار میں بھی اضافہ ہوا۔ گزشتہ برسوں میں کھادوں، مختلف ادویات پر سبسڈی دی گئی اور اس کے ساتھ ساتھ بیچ بھی دیئے گئے تاکہ ہماری زرعی آمدن میں اضافہ ہو۔ مختلف قسم کی مشینری بھی دی گئی جس میں ٹریکٹر ، ہل وغیرہ شامل ہیں۔ آبپاشی کے لئے سولر سسٹم اور بائیو گیس کو ترجیح دی گئی تاکہ بجلی کے بل سے بچا جا سکے اور پیداوار میں اضافہ ہو۔حکومت پنجاب کی ان کسان دوست پالیسیوں کے باعث کسانوں کی خوشحالی میں اضافہ ہوگا۔ جس کی وجہ سے ہمارے ملک میں زرعی پیداوار میں اضافہ ہوگا۔ 

Share
Banner

Faisal Aslam

Post A Comment:

0 comments: