مشہور تحاریر

یہ بلاگ تلاش کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Navigation

بریکنگ نیوز

ملمع سازی



تحریر: عتیق الرحمان قریشی 


 زندگی کوجینے کیلئے انسان نے جوپیمانے بنائے ہیں وہ قدرت سے ہٹ کرہیں اور جب جب انسان نے قدرت کے فیصلوں سے بغاوت کی ہے تب تب انسان نے اپنے لیے مشکلات پیدا کی ہیں حرص , طمع لالچ مطلبی تعلقات اور انسان کی انسان اعلٰی دکھنے اور دورسر کو خود سے کمتر اور کم سمجھنا انسان کے زوال کی سب سے بڑی کمزوری اور بری خصلت ہے زندگی کی دوڑدھوپ اورکامیابی کی تگ ودو میں گھومتے پھرتے انسان کواس بات کااحساس ہی نہیں ہوتاکہ کب اورکیسے اسنے معاشرے کے رویوں سے متاثر ہوکر غلط اور صیح کی پہچان بھلا دی اور سکون کی تلاش میں بھٹکتے ہوئے جانے ا نجانے میں بے چینی کے کتنے بڑے دلدل میں دھنستا چلا جارہا ہے اپنے ذاتی مفاداورجھوٹی انا کی تسکین کیساتھ ساتھ آج کیانسان کا سب سے بڑا دشمن اسکی اپنی جانب سے پیداکی گئی ملمع سازی ہے یہ وہ شے ہے جوکسی ہنستے مسکراتے شخص کولمحوںمیںاداسی اوربے سکونی کی جانب دھکیل سکتی ہے ملمع سازی کوانسان نے شاید اپنا معیار بڑھانے لوگوں اورمعاشرے میں اپنانام بنانے کیلئے اپنایاہے اس سیانسان اپنی ظاہری شخصیت کوچھپا کر لوگوں کیسامنے ایک اورہی شخصیت کومتعارف کرواتا نظر آتاہے اس عمل میں لوگ اپنے اخلاق واقدار اور ظاہری مالی حالات کو بڑھاچڑھا کر دکھانے کے حوالے سے زیادہ متحرک نظر آتے ہیں۔

 ان سب کے ذریعہ سے انسان خود کو باکردار بااخلاق اور مالدار دکھانے میں مصروف عمل ہے تاکہ معاشرے میں زیادہ سے زیادہ لوگ اس سے متاثررہیں اور اسکا ایک مقام ومرتبہ بنارہے یہ ملمع سازی عارضی ہوتی ہیاور جوں جوں لوگ اس شخص کے قریب آتے ہیں تووہ اسکی شخصیت کی حقیقی تصویرسے آشناہوتے جاتے ہیں اورایک وقت آتاہے کہ اسکے نام پر سے وہ ملمع سازی کالباس جواس نے بڑی محنت اور لگن سے لوگوں کوگمراہ کرنیکی غرض سے چڑھارکھاہوتاہے وہ اترنا شروع ہوجاتا ہے اور لوگوں کو اسکی حقیقت کی زندگی نظرآنے لگتی ہے اس سے موصوف شرمندگی محسوس کرتاہے اور اس شرمندگی سے چھٹکارہ حاصل کرنے اور اسکے تدارک کیلئے وہ مختلف قسم کی کوششیں کرتا ہے مگر بعض اوقات یہ کوششیں ناکام رہتی ہیں اور وہ پریشانیوں میں مبتلا ہوجاتاہے یہ پریشانیاں ایسی ہوتی ہیں کہ اسکو مسلسل احساس کمتری میں ڈبوئے رکھتی ہیں اور وہ ڈپریشن کاشکارہوجاتا ہے اسطرح کی صورتحال پیداہونے کے بعد انسان میں چڑچڑا پن بلڈپریشر اور نجانے کتنی نفسیاتی بیماریاں پیدا ہوسکتی ہیں بات بات پرلڑنا جھگڑنا غصہ کرنا متاثرہ شخص کا معمول بن جاتاہے جو کہ اسکے معیار اخلاق کوشدید قسم کا جھٹکا ہوتاہے اور اسکے اخلاق کو مزید پستی کا سامنا کرنا پڑسکتاہے ایسی صورتحال کسی بھی بااخلاق شخص کو پست اخلاقی کا مریض بنادیتی ہے اوروہ گھریلو اور باہرکی زندگی میں انتہائی مضطرب اور قابل رحم زندگی گزارنے پے مجبور ہوجاتاہے ۔

اخلاق کی یہ پستی اور ڈپریشن انسان کے لیے انتہائی بھیانک نتائج رکھتے ہیں اسطرح ایک ہنستے مسکراتے اور خوش وخرم زندگی بسرکرتے شخص کی زندگی مسلسل ڈپریشن اور پریشانیوں کیوجہ سیدشوارہوجاتی ہے۔اگر ہم اسکے برعکس دیکھیں اور معاشرے کامشاہدہ کریں تو ہمیں ہوشربانتائج حاصل ہوتے ہیں معاشرے میں لوگوں کی عزت اوروقار کا معیارہی اہل معاشرہ نے ملمع پیرکھاہوا ہے جوبھی شخص جتنا بڑا ملمع ساز ہے ہو اتناہی باوقار اور معتبر سمجھا جاتاہے اگراسی بات کوواضح انداز میں کھول کر کہا جائے تویوں ہوگاکہ جوشخص جتنابڑا جھوٹاہے ہمارا معاشرہ بدقسمتی سے اسیاتناہی باوقار اور معتبربناتاہے میرییہ الفاظ کچھ ترش توضرورہیں مگر حقیقت یہی ہے کہ ملمع سازی کوجھوٹ اور دھوکہ دہی ہی کانام دیاجاسکتا ہے انسان فطری اعتبارسے توجہ کابھوکا ہے اور ہرایک انسان اپنی عزت کروانا چاہتاہے عزت کروانے کا جنون انسان کوصیح اورغلط کافرق بھلادیتا ہے اوربعض اوقات انسان زمانے کے رجحان کے مطابق توجہ حاصل کرنے کیلئے ملمع سازی جیسے قبیح عمل کاسہارابھی لیتاہے اور اس امرسے اسکو اس وقت پشیمانی اور ذہنی دبائو اسکی زندگی کومزید مشکل اورپیچیدہ بناسکتاہے اوربعض اوقات کئی افراداپنی پشیمانی سے بچنے اورمعاشرے سے انتقام کی آگ میں مختلف جرائم اور نشہ آور اشیا کے استعمال کاسہارابھی لیتے ہیں جوکہ نہ صرف متاثرہ شخص بلکہ عام شہریوں سمیت پورے سماج کیلئے نقصان دہ فعل ہے۔

 ملمع سازی موجودہ دور کاسب سے بڑا مسئلہ ہے اوراسکے تدارک کیلئے باقاعدہ طور پرکوئی معیاری قدم نہیں اٹھایاگیا چند ایک سوشل اداروں اور انسانی حقوق کا نعرہ لگنے والی این جی اوز نے اسکی روک تھام کیلئے انتہائی ناکافی اقدامات اٹھائے ہیں مگر میں سمجھتا ہوں کہ اسکی روک تھام کیلئے کیئے گئے سبھی اقدامات ناکافی ہیں اور یہ سب اپنے مقصد کے حصول میں ناکام ہوچکے ہیں۔ ملمع سازی کے سدباب کیلئے ضروری ہے کہ معاشرے میں اسکے خلاف اجتماعی اقدامات کیے جائیں جس میں سب سے اہم اوربنیادی کام لوگوں میں یہ آگہی پیدا کرناہے کہ اہمیت کبھی بھی ظاہری شکل وصورت کیوجہ سے نہیں ہوتی اورنہ ہی عزت دولت کی محتاج ہوتی ہے عزت صرف فرد اوراسکے اخلاقی اقدار کی ہوتی ہے لہذا کسی بھی فردکوعزت دینے کامعیار اور تبدیل ہوسکے اور عزت نفس جوہرانسان کابنیادی حق ہیاس تک باآسانی پہنچ سکے اورملمع سازی جیسے قبیح فعل سے معاشرے کو چھٹکارہ حاصل ہو اورمعاشرے سے ذہنی پریشانی سمیت دوسرے مسائل کامستقل بنیادوں پرسدباب کیاجاسکے اورمعاشر ے سے ملمع سازی کی جڑوں کو بھی اکھاڑ کر امن وامان اور بھائی چارے پے مبنی ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیاجائے جس میں انسان اور اسکی عزت نفس کو اسکی غربت کیوجہ سے مجروح نہ کیاجائے بلکہ انسان کی عزت ہو انسانیت کی عزت ہو۔

٭٭٭٭٭


Share
Banner

Faisal Aslam

Post A Comment:

0 comments: