مشہور تحاریر

یہ بلاگ تلاش کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Navigation

بریکنگ نیوز

قوم بہت پچھتائے گی؟؟؟





تحریر: ڈاکٹر ایم اے محسن


وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرانے کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے میں سپیکر قومی اسملی اسد قیصر کی ہچکچاہٹ جہاں اپوزیشن کو ناگوار گزر رہی تھی وہیں 21 مارچ کو اجلاس نہ بلانا آئین سے بھی متصادم قرار دیا جا رہا ہے لیکن سپیکر قومی اسمبلی نے طویل مشاورت کے بعد 25 مارچ کو 11 بجے قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کر لیا ہے اور انہوں نے 21 مارچ کو اجلاس نہ بلانے کی کی تفصیلات سے بھی آگاہ کر دیا ہے۔ اپوزیشن عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو کامیاب کرانے کے لیے تمام حربے استعمال کر رہی ہے۔ میں کسی ثبوت کے بغیر یہ نہیں کہوں گا کہ نوٹوں کی بوریوں کے منہ کھول دیئے گئے ہیں لیکن یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ منحرف اراکین اسمبلی کو تمام بڑی جماعتوں نے آئندہ الیکشن میں اپنے اپنے حلقوں سے ٹکٹوں کی یقین دہانی ضرور کرائی ہے جس کا اعتراف فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے ایم این اے رانا ریاض نے بھی کیا ہے لیکن آئین کے A  63 کے مطابق رقم لیکر یا کسی اور لالچ میں اگر کوئی رکن اسمبلی عدم اعتماد کا ووٹ اپنی پارٹی کے خلاف استعمال کرے گا تو وہ نااہل اور ڈی سیٹ ہو جائے گا۔ 

ادھر عدم اعتماد کی تحریک نے عمران خان کی پاپولریٹی میں بھی اضافہ کر دیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ماضی میں جب بھی کسی حکومت کے خلاف  2B 58-استعمال کی گئی یا عدم اعتماد لائی گئی تو ان حکومتوں پر کرپشن کے واضع الزامات لگاکر ان کو ہٹایا گیا یا ہٹانے کی کوشش کی گئی لیکن کتنی عجیب بات ہے کہ عمران خان پر کرپشن کے الزمات نہیں ہیں بلکہ یہ کہا جا رہا تھا کہ ان کے ساتھیوں جہانگیر ترین اور علیم خان جیسے لوگ کرپٹ ہیں اور لوگ بھی ہوں گے ان کے خلاف بھی کاروائی ہونی چاہیے تھی لیکن جن لوگوں کے خلاف کاروائی کی گئی آج اپوزیشن نے ان کو اپنے سر کا تاج بنا رکھا ہے۔ کیوں کہ یہاں ان سب کے مفادات ایک جیسے ہیں آج اپوزیشن عمران خان کی حکومت پر مہنگائی کا الزام لگا کر انہیں چلتا کرنا چاہتی ہے کی،یہ مہنگائی صرف پاکستان میں ہی ہے یا پوری دنیا میں کوویڈ19 کی وجہ سے مہنگائی کی لہر آئی ہے؟ یہ قوم عمران خان کو سلام پیش کرتی ہے جب پوری دنیا میں لاک ڈائون چل رہا تھا تو عمران خان غریب کی طرف دیکھتے ہوئے ضروری جگہ سمارٹ لاک ڈائون لگا رہا تھا۔ اپوزیشن صرف مہنگائی کا رونا پیٹ کر اور ایک دوسرے کو چوکوں پر الٹا لٹکانے والے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر جب عمران خان کو کرپٹ کہتے ہیں تو پاکستان کے چھوٹے بچے بھی ہنسنے پر مجبور ہوجاتے ہیں اب عمران خان کو چھوڑنے والے یہ کہتے ہیں کہ ہم عمران خان کے نعرے نیا پاکستان کی وجہ سے ان کے ساتھ گئے تھے تو بھئی اب کیا ہوا کیا عمران خان نے کہہ دبا ہے کہ نیا پاکستان نہیں بنے گا اس قوم میں( لاابالی پن ) یعنی جلد بازی بہت ہے۔

 آپ روز مرہ کی روٹین چیک کرلیں ابھی کسی کمپنی کی پراڈکٹ کا اشتہار ٹی وی پر آیا نہیں لوگ ہاتھ میں چٹ لیے اسے ڈھونڈنا شروع کر دیتے ہیں۔ ایسے ہی یہ قوم عمران خان کی حکومت کے تین ماہ بعد سے نیا پاکستان ڈھونڈ رہی ہے۔ جو لوگ کہتے ہیں عمران خان کی تربیت کی ضرورت ہے نہیں اس قوم کی تربیت کی زیادہ ضرورت ہے تاکہ انہیں معلوم ہو سکے کہ انقلاب دنوں مہینوں میں نہیں اس کے لیے دہائیاں درکار ہوتی ہیں اور مہنگائی کا رونا رونے والوں کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ انقلاب کے لیے پیٹ پر پتھر باندھنا پڑتے ہیں۔ یہ مہنگائی عمران خان نے نہیں بلکہ اگر ہم اپنے گریبانوں میں جھانکیں تو پتہ چلے گا کہ ہم نے خود کی ہے اور ہر فرد کسی بھی چیز کی قیمت بڑھانے کے لیے عمران خان کو مورد الزام ٹھرا رہا ہے۔ کل جب نواز شریف کو ہٹایا گیا تھا تو سب کہتے تھے اسے مدت پوری نہیں کرنے دی گئی۔ جب اس سے پہلے یوسف رضا گیلانی کو ہٹایا گیا تو تب بھی یہی لوگ افسوس کر رہے تھے اور آج عمران خان کے ساتھ بھی وہی کچھ ہو رہا ہے کچھ لوگ بغلیں بجا رہے ہیں لیکن عمران کے جانے کے بعد افسوس کریں گے ۔کسی نہ کسی کو تو مدت پوری کرنا ہوگی اگر اتنی جلدی ہی ہوتی ہے حکومت کی تبدبلی کی تو اس کی مدت کم کرلیں لیکن اس روایت کو توڑنا ہوگا ۔

آج عمران خان پوری دنیائے اسلام میں ایک سورج کی طرح چمک رہا ہے۔ آج اوآئی سی کا اجلاس اس پاکستان میں ہو رہا ہے جسے کل تک دنیا غیر محفوظ سمجھتی تھی۔ آج اقوام متحدہ نے اسلامو فوبیا کو تسلیم کرتے ہوئے 15 مارچ کا دن اسلامو فو بیا کے اتسداد کا عالمی دن قرار دیا ہے ۔آج اوورسیز پاکستانیوں کی قدر میں اضافہ ہوا ہے آج عمران خان دنیاکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر رہا ہے تو صرف اس قوم کے بھروسے پر،سب کو مل کر عمران خان کا مان بڑھانا ہوگا۔انقلاب کے لیے تھوڑے صبر اور تحمل کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ تمام سیاسی پارٹیوں کو بھی سوچنا ہوگا اگر عمران خان اپنی مدت پوری نہ کر سکا تو پھر اور کوئی کیسے کرے گا ؟اگر پچاس سالہ پرانے سیاسی دشمن گلے مل سکتے ہیں تو پھر اس چار سالہ سیاسی مخالف سے بھی ہاتھ ملانے میں کیا حرج ہے ۔ان تمام ساسی پارٹیوں کو چاہیے کہ مل کر ملک میں پھیلی بے چینی اور افرا تفری کا خاتمہ کریں اور عمران خان کو بھی چاہیے کہ اپنے الفاظوں پر کنٹرول کرے اور اپنے وزیروں مشیروں کی چرب زبانی پر پابندی لگائے کیوں کہ یہ لوگ بھی عمران کے کے خیر خواہ نظر نہیں آتے اور اگر ایک دو روز میں معاملات درست اور ٹھنڈے نہ ہوئے اور سیاسی پارٹیوں کے کارکن آمنے سامنے آگئے تو قوم بہت پچھتائے گی اور اللہ جانے اس لڑائی کا نتیجہ کیا نکلتا ہے ؟

Share
Banner
Next
جدید تر اشاعت
Previous
This is the last post.

Faisal Aslam

Post A Comment:

0 comments: