تحریر: افتخار چانڈیہ
رمضان المبارک کے متبرک مہینے میں نماز اور روزہ رکھنے کیساتھ چند اخلاقیات کی باتوں پر توجہ مرکوز کی جائے تو میرے خیال میں اس متبرک ماہ صیام میں زیادہ سے زیادہ برکات حاصل کی جا سکتی ہیں نظام قدرت میں مٹی سے بنے انسان کو بہت اعلی مقام حاصل ہے حتی کہ نور سے بنے فرشتے بھی مسجود ٹھہرے خالق کائنات کی تمام تر مخلوقات میں سے انسان کو ایک خاص مرتبہ حاصل ہونا انسان کیلئے اعزاز کیساتھ تفکر کا بھی مقام ہے کہ جس انسان کو اتنی عزت وتکریم بخشی گئی پھر وہ اس جہان میں رسوا کیونکر ہوا اب اس بات پر غور کرتے ہوئے سب سے پہلے یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آخر کار نظام قدرت میں عزت و ذلت کا پیمانہ ہے کیا کس طرح معلوم ہو گا کہ کون عزت وتکریم والا ٹھہرا خالق کائنات نے اپنی مخلوق کے درمیان ربط برقرار رکھنے کیلئے اسے بولنا سکھایا جب وہ بولنے لگا تو پھر اس کو سمجھنے کی صلاحیت سے بھی نوازا اپنے عطا کردہ علم کے ذریعے اپنی تمام تر پیدا کردہ مخلوقات کے درمیان رابطے کا نظام مرتب فرمایا پھر ان میں سے انسان وہ واحد مخلوق ٹھہری جس کو ایسا علم اور شعور بخشا گیا کہ وہ اپنے علاوہ قدرت کیطرف سے باقی بنائی گئی مخلوق کی بھی بولیاں سمجھنے لگا اب اس یہ کوئی تفریق نہیں رکھی گئی اس انسان کا تعلق دنیاکے کس مذہب یا علاقہ سے ہے بلکہ ترتیب یہ رکھی گئی کہ جس انسان نے بھی جتنی جستجو کی اسے اتنا نوازا گیا۔
مطلب اسے عطا کیا گیا یہ کیسے ہوسکتا ہے جی ہاں اس بات کے ادراک کیلئے بھی فکر کی ضرورت ہے یہ سب عنایات انسان پر ہی کیوں کیونکہ اللہ پاک نے انسان کو اپنا نائب یعنی خلیفہ بنا کر بھیجا ہے اور پھر اتنی بڑی ذمہ داری سونپنے کے بعد اسے علم وحکمت سے نواز کر اس دنیا میں بھیجا گیا جب یہ سب کچھ ہو چکا تو پھر انسان نے اپنے رب کا شکرادا کرتے ہوئے خود کو اللہ پاک کے سپرد کرتے ہوئے احکامات خداوندی کے مطابق زندگی گزارنا شروع کردی انہیں لوگوں کیلئے اللہ نے فرمایا کہ اے انسان تو اپنے رب سے ہر وقت ہدایت طلب کر تاکہ تجھے تیری اور اپنے مالک حقیقی کی معرفت حا صل ہو سکے اور پھر قرآن کے ذریع? یہ سمجھایا کہ اے انسان اپنے رب کو ہمیشہ یاد رکھ دعا کیا کر کہ اے میرے کریم پروردگار مجھے اپنے انعام یافتہ لوگوں میں شامل کر نہ کہ جن پر تیرا غضب ہوا ہو جی بالکل جن لوگوں پر اللہ نے انعام کیا وہ بے شک عزت والے ٹھہرے انہوں نے اپنے رب کریم کی فرمانبرداری کرتے ہوئے بندگی کا حق ادا کردیا آج اگر ہم سوچیں کہ ہم کیا کر رہے ہیں کیاہم اپنے رب کی دی ہوئی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کے بعد اس کی فرمانبرداری کر رہے ہیں۔
تو میرے خیال میں ہمیں یہ احساس ضرور ہو گا کہ جس خالق کائنات نے ہمیں مٹی سے پیدا کر کے نوریوں کو ہماری تعظیم میں جھکا دیا ہم نے اس طرح سے اسکی بندگی کا حق ادا نہیں کیا اگرکرتے تو آج بھی یہ دنیا جنت بن جاتی ہر طرف محبت کی خوشبوں کے پھول مہکتے امن کی بہار ہوتی مخلوق خدا ایک دوسرے کے احترام میں پہل کرنے کی کوشش کرتی مگر نہیں ایسا کیوں نہیں کیونکہ ہم نے اپنی پہچان ہی نہیں کی پھر ہمیں کیسے یہ ادراک ہو کہ دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں آئیں سوچیں فکر کریں اور اپنے رویوں کو بدلتے ہوئے عدم برداشت نفرت بد اخلاقی کے بجائے برداشت احساس اور خلوص کو اپنائیں تاکہ مخلوق خدا کی خدمت کر کے حقیقی معنوں میں پیغام رمضان پر عمل پیرا ہو سکیں۔


Post A Comment:
0 comments: